طوفان الاقصیٰ: اسرائیل کا غزہ میں جنگی جنون، ہر طرف بچوں کی نعشیں

0 176

رپورٹس کے مطابق 2 لاکھ 20 ہزار فلسطینی اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لینے پر مجبور ہیں، ایک لاکھ فلسطینی اپنے عزیزوں، گرجا گھروں میں رہنے پر مجبور ہوگئے ہیں

اسپتالوں میں زخمیوں کے لیے بستر اور دوائیں کم پڑگئی ہیں اور بجلی بند ہونے سے وینٹی لیٹرز چلانا چیلنج بن چکا ہے۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی ٹیم غزہ کے اسپتال پہنچی تو صحافیوں کو اسرائیلی بمباری کا نشانہ بنے اپنے ہی زخمی دوست اور اہل محلہ جا بجا نظر آئے۔

رپورٹر نے ایسے دلخراش اور بے بسی کے مناظر دیکھے کہ خود اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور صدمے سے سرپکڑ کر بیٹھ گیا۔ اسرائیل نے امدادی کارکنوں کو بھی نہ بخشا، پچاس سے زائد طبی عملے کے ارکان بھی حملوں میں شہید ہوئے ہیں۔

فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی پر اسرائیلی فوج کی بربریت کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہونے والے جانی نقصان میں نہتے بچوں کی سب سے زیادہ اموات ہو رہی ہیں۔

’کسی بھی مذہبی مقام کی نوعیت کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا‘: سپریم کورٹ

امام کعبہ فلسطینیوں کے لیے دعا کراتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے

غزہ کی پٹی کے الشفاء اسپتال کے کولڈ اسٹوریج میں اب اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی نعشیں رکھنے کی گنجائش نہیں رہی ہے۔ خون سے لتھڑے سفید تھیلے جنرل ڈیپارٹمنٹ آف فرانزک میڈیسن کی عمارت کے باہر فٹ پاتھ پر اور ٹرکوں میں دفن ہونے کے منتظر تھے۔

سکیورٹی کے مشکل حالات کی وجہ سے نعشوں کی نماز اور تدفین میں مشکلات پیش آرہی ہیں۔بعض نعشیں پورے پورے خاندان کے افراد پر مشتمل ہیں اور ان کے زندہ بچ جانے والے پیارے یا تو خود زخمی ہیں یا وہ نعشوں تک رسائی حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ ہر تھیلے پر متوفی کا نام یا اس خاندان کا حوالہ درج ہے۔

بعض نعشوں پر ان کے آبائی مقام کا پتہ بھی درج ہے تاکہ شہید ہونے والوں کو ان کے پیارے تلاش کرسکیں۔ دواخانوں کے قریب شہید ہونے والے بچوں کے کفن کے سائز سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان میں بچوں کی نعشیں ہیں۔غزہ شہر کے مرکزی الشفاء اسپتال کی گزر گاہیں زخمیوں سے بھری ہوئی ہیں۔

مردہ خانے کے گیٹ کے سامنے درجنوں لوگ رو رہے تھے۔ ریفریجریٹر کے کمرے کے اندر درجنوں نعشوں کو کفنوں میں لپیٹ کر فرش پر رکھ دیا گیا جس کے بعد ریفریجریٹر نعشوں سے بھر گیا۔

سیکڑوں فلسطینی مغربی غزہ شہر میں اسرائیل کی طرف سے تباہ شدہ رہائشی عمارتوں کے ملبے میں اپنے پیاروں کی باقیات اور نعشیں تلاش کر رہے ہیں۔

دریں اثنا جمال المصری نامی ایک فلسطینی شہری نے صدمے سے بتایا کہ کس طرح اسرائیل نے اس محلے پر بمباری کی جہاں وہ رہتا ہے۔ اس نے کہا کہ ہم سو رہے تھے کہ اچانک پورا محلہ بمباری کی زد میں آگیا۔ میرا گھر، میرے بھائی کا گھر، میرا خاندان، اور بہت سے دوسرے گھر تباہ ہو گئے۔ ان کا گھر مکمل طور پر تباہ ہو گیا۔

اس نے حیرت سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا گھر چھوڑا ہے۔ سب شہید ہوگئے۔ میرے بچوں اور ان کے بچوں کی نعشیں ہیں۔غم زدہ شخص نے روتے ہوئے کہا کہ سب مر چکے ہیں۔

وہیں اسرائیل کا غزہ پر 6 ہزار بم گرانے کا اعتراف کیا ہے۔ اسرائیلی بمباری میں مجموعی طور پر شہید ہونے والوں کی تعداد 1900 سے زیادہ ہوگئی، 600 سے زیادہ بچے اور 400 خواتین بھی شہداء میں شامل ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.