سعودی خلابازخلا میں کینسر، کلاؤڈ سیڈنگ، مائیکرو گریویٹی پرتحقیق کریں گے
بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جانے والے سعودی عرب کے چارخلاباز20 اہم تجربات کریں گے۔ان میں کینسر کی پیشین گوئی اور روک تھام کے بارے میں تحقیق اور چاند اور مریخ پر مستقبل میں انسانی بستیوں میں مصنوعی بارش پیدا کرنے کے بارے میں ایک مطالعہ شامل ہے۔ان خلابازوں میں پہلی عرب خاتون بھی شامل ہیں۔
خیال رہے کہ علی القرنی اورریانہ برناوی سعودی عرب کے پہلے قومی خلائی پروگرام کے ارکان ہیں جو مئی میں فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے اڑان بھرنے والے عملہ کے چاررکنی مشن کا حصہ ہوں گے۔
دونوں سعودی خلاباز ایکزیم اسپیس کے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن (آئی ایس ایس) کے دوسرے کل نجی خلائی مشن میں شامل ہوں گے۔یہ دنیا کے پہلے تجارتی خلائی اسٹیشن اور آئی ایس ایس کے جانشین ایکزیم اسٹیشن کی جانب ایک اور اہم قدم ہے۔
سعودی عرب کی نمائندگی کرنے والے مشن کے ماہرین علی القرنی اور ریانہ برناوی آئی ایس ایس اسٹیشن پر جانے والے پہلے سعودی خلاباز ہوں گے۔یہ مشن سعودی عرب کی انسانی خلائی پرواز کی جانب لوٹنے کی نمائندگی کرتا ہے۔1985 میں سعودی عرب نے پہلے عرب شہزادہ سلطان بن سلمان کو خلا میں بھیجا تھا اور اس کے قریباً 40 سال بعد اس نے اپنے خلانوردوں کو خلائی مشن پر روانہ کیا ہے۔ سعودی عرب پہلا ملک بن جائے گا جو آئی ایس ایس پر ایک ہی وقت میں دو خلابازوں کو رکھنے کے لیے باضابطہ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن شراکت داری کا حصہ نہیں ہوگا۔
اب تک دنیا کے بیس ممالک کے 263 افراد آئی ایس ایس کا دورہ کر چکے ہیں جبکہ سعودی عرب چھٹا ملک بن جائے گا جس کے مدار میں گردش کرنے والی لیبارٹری میں بیک وقت دو قومی خلاباز کام کریں گے۔
ایکزیم سپیس نے اب آنے والے مشن کے لیے منصوبہ بند تحقیق کے بارے میں مزید تفصیل کا انکشاف کیا ہے۔جس میں مستقبل میں علاج کی ایپلی کیشنز تیار کرنے پر توجہ مرکوز کرنا، ٹیومر آرگنائڈ ماڈلز میں مدافعتی خرابی کا مطالعہ کرنا شامل ہے جو کینسر کی پیشین گوئی اور روک تھام میں مدد کرسکتا ہے۔وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کریں گے کہ تجارتی خلائی پرواز کے عملہ کے ارکان مائیکرو گریویٹی کو کس طرح اپناتے ہیں، اور یہ دریافت کریں گے کم کشش ثقل کے حالات میں موسم کی تبدیلی کس طرح کام کرتی ہے۔
ایکزیم اسپیس کاچارخلابازوں پر مشتمل عملہ خلائی اسٹیشن پر رہتے ہوئے 20 سے زیادہ مختلف تجربات کرے گا۔ایکزیم نے اپنی ویب سائٹ پرایک بیان میں کہا کہ پرواز میں فراہم کردہ اعدادوشمار زمین اور مدار میں انسانی فزیالوجی کی تفہیم کو متاثر کریں گے ، ساتھ ہی نئی ٹیکنالوجیوں کی افادیت کا بھی اندازہ کریں گے جو مستقبل میں انسانی خلائی پرواز کے حصول اورزمین پرزندگی کو بہتر بنانے کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں۔
ایکزیم اسپیس میں ان اسپیس سلوشنزکے ایگزیکٹو نائب صدرکرسچن مینڈرنے کہاکہ ’’اس مشن پر کی جانے والی اہم تحقیق کی وسیع رینج کو دیکھنا اور ہماری کچھ بائیو میڈیکل مصنوعات کے لیے مستقبل میں ان-اسپیس مینوفیکچرنگ ایپلی کیشنز تیارکرنے میں پہلا قدم اٹھانا ایک دلچسپ امرہے‘‘۔
ایکزیم اسپیس کی چیف سائنس دان ڈاکٹرلوسی لو کا کہنا ہے کہ ’’اس مشن پر پرواز کرنے والے منصوبے زمین کے نچلے مدار کو ایسی ٹیکنالوجیز کے مینوفیکچرنگ پلیٹ فارم کے طور پرآگے بڑھائیں گے جو زمین پر انسانی صحت کے لیے مہمیز کا کام دے سکتی ہیں۔یہ خلا میں صحت کے بارے میں ہماری تفہیم میں اضافہ کر سکتی ہیں اور یہ ظاہر کریں گی کہ مدار میں محفوظ اور مؤثرطریقے سے کس طرح کام کیا جاسکتا ہے۔
مشن کی تحقیقات
چار افراد پر مشتمل یہ عملہ زمین کے نچلے مدار میں ڈی این اے نینو تھراپیوٹکس سے لے کر کینسر تک مختلف قسم کے تجربات کرے گا۔ان میں یہ تجربات شامل ہوں گے:
مائکرو گریویٹی میں کلاؤڈ سیڈنگ
کلاؤڈ سیڈنگ – سلور آیوڈائڈ (اے جی آئی) کرسٹل جیسے ذرّات کے ساتھ بادل لگا کرمصنوعی طور پر بارش پیدا کرنے کا عمل ہے۔یہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب سمیت بہت سے ممالک نے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں میں بارش میں اضافہ کرنے کے لیے اپنایا ہے۔اس تجربے میں چاند اور مریخ پر مستقبل میں انسانی بستیوں میں مصنوعی بارش پیدا کرنے کا جائزہ لیا جائے گا۔اس کے علاوہ موسمیاتی کنٹرول ٹیکنالوجی تیارکرنے میں مدد کے لیے مائیکرو گریویٹی حالات کے تحت خلا میں پہلی بار کلاؤڈ سیڈنگ کا جائزہ لیا جائے گا۔
ستارہ اسٹیم خلیات
یہ منصوبہ خلامیں اسٹیم سیلز اوراسٹیم سیل سے حاصل کردہ مصنوعات کی پیداوار پر مائیکرو گریویٹی کے اثرات کے بارے میں بصیرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔زمینی مینوفیکچرنگ میں استعمال ہونے والے اقدامات کاجائزہ لینے کے لیے جگہ کا استعمال جلد کے خلیات (فائبربلاسٹس) کو اسٹیم سیلز میں دوبارہ پروگرام کرنے کے لیے کیاجاتا ہے جومختلف ٹشواقسام (دل، دماغ اور خون) پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، زمین پر تجدیدی ادویہ کے استعمال کی حمایت کرسکتے ہیں۔
زمین کے نچلے مدار میں سرطان
خلا میں ایکزیم کے پہلے مشن پر ایک فالو آن پروجیکٹ کے طور پر یہ کوشش اسٹیم سیل ماڈلز کی جانچ کرتی ہے۔یہ کینسر کی پیشین گوئی اور روک تھام میں مدد کرسکتے ہیں۔ یہ ماڈل قبل از سرطان ،کینسراور زمین پر مختلف قسم کی دیگر بیماریوں کا پتالگانے اور علاج میں معاون ہوسکتے ہیں۔
خلائی ٹشو اور بحالی
بائیوانجینئرڈجگراورگردے کے ٹشوز کی تشکیل کو خلا میں بھیجا جائے گا تاکہ موٹے ٹشوز کی ویسولرائزیشن پر مائکرو گریویٹی کے اثرات کا جائزہ لیا جاسکے۔اگر یہ پلیٹ فارم ٹیکنالوجی اور طریق کار کامیاب ہوجاتا ہے تو ٹشوز کے ‘بلڈنگ بلاکس’ کی خلا میں بائیوانجینئرنگ کا سبب بن سکتا ہے اور یہ عطیہ دہندگان کے اعضاء کی مریضوں میں پیوندکاری کے لیے پل کا کام کرسکتی ہے۔
Abrar Ahmed is a Pakistani journalist, columnist, writer, and author known for his contributions in the field of journalism and conflict resolution. He was born on March 19, 1982. He holds a master’s degree from the University of the Azad Jammu and Kashmir Muzaffarabad and has also studied at Quaid E Azam University.
Abrar Ahmed is recognized as the founder of several notable organizations, including the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and Daily Sutoon Newspaper. Additionally, he established the Save Humanity Foundation, reflecting his commitment to humanitarian causes.
As a journalist, columnist, and author, Abrar Ahmed has written extensively on various subjects. He has authored several books, including “Tehreek E Azadi key Azeem Surkhaik,” “Corruption key Keerhay,” “Masla e Kashmir ka Hal Aalmi aman ka Rasta,” and “Pakistan and Azad Kashmir political system and new system needed.” These books cover topics ranging from the struggle for freedom, corruption, the Kashmir issue, and the need for political reform.
Abrar Ahmed has also contributed to education through his text books, such as “Modern Community Development Ideas” and “Basic Journalism,” which have helped educate and shape the minds of aspiring journalists and community development professionals.
In summary, Abrar Ahmed is a multifaceted individual who has made significant contributions to journalism, conflict resolution, and education in Pakistan. His work as a writer and founder of various organizations reflects his dedication to promoting positive change and addressing critical issues in society