کسی بھی معاشرے کے لئےتعلیم کی اہمیت ناگزیر تسلیم کی جاتی ہے اور ماہرین کا قول ہے کہ درسگاہوں میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا عمل بھی بخوبی چلنا چاہئیے کیونکہ نصاب کی تکمیل جہاں تعلیم کا پہلو ممکن بناتی ہے وہیں غیر نصابی سرگرمیاںطلبہ کو تربیت اور سیکھنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کو بھی اہمیت دی جائے ۔
یہ سرگرمیاں طلبہ میں خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ محنت کرنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتی ہیں جوان کی شخصیت پر مفید اثرات مرتب کرتاہے ۔ یہ نہ صرف دماغ کی بہترین نشو و نماکرتی ہیں بلکہ ایک صحت مند مقابلے کی فضا بھی پیدا کرتی ہیں جس سے نہ صرف طلبہ کواپنی فطری صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملتا ہے بلکہ ان میں لیڈر شپ کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ طلبہ کے لئے نصاب کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں کی اہمیت سے بھی انکار ممکن نہیں۔
تحقیق کے مطابق جو طلبہ نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے ہیں وہ دیگر طلبہ کی نسبت زیادہ اسکور کرتے ہیں۔ ماہرین کے نزدیک جو بچے اپنے وقت کا بہتر انصرام کرنا یا اپنے دباؤ کو کم کرنا سیکھ جاتے ہیں ایسے طلبہ ایک سے زیادہ چیزوں میں انتہائی مہارت حاصل کرنے کی کوشش میں جتے رہتے ہیں ۔تاہم سب سے اہم سوال یہ پیش آتا ہے کہ دوران تعلیم وہ نصابی سرگرمیاں کون سی ہیں جو طلبہ کی سیکھنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرسکیں جو ان میں نظم و ضبط کا قیام ، ہدف کا تعین ، ٹیم ورک، احتساب اور ذمہ داری کا احساس جگا سکیں۔
غیر نصابی سرگرمیوں سے قبل ضروری ہے کہ ان سرگرمیوں پر بات کی جائے جن کا شمار ہم نصابی سرگرمیوں میں کیا جاتا ہے ۔ان سے حاصل ہونے والے فوائد میںاجتماعی مفادات ،بلند کرداری اور مضبوط اخلاق جیسی صفات شامل ہیں اور ان سرگرمیوں کا سب سے اہم فائدہ طالبات کا روز مرہ کے تدریسی کاموں میں دلچسپی کے عنصر کا اضافہ کرنا، سیکھنے کا جذبہ اور رفتار کی صلاحیت بڑھانا ہے۔
ادب و ثقافت سے آگا ہی فراہم کرنے والی تفریحی سرگرمیاں
اسکول میں طلبہ وطالبات کو ادب اور ثقافت سے آگاہی فراہم کرنے کے لئے ورائٹی پروگرام اور مضمون نویسی جیسے مقابلوں کا اہتمام کیا جاتا ہے جن کا مقصد ایک طرف بچوں کو ادب اور ثقافت سے آگاہ کرنا ہوتا ہے تو دوسری طرف ان میں ادبی ذوق ابھارناتاکہ ان میں موجود فنکارانہ صلاحیتوں کو اظہار کا موقع دیا جاسکے۔
نیشنل ڈے اور طلبہ و طالبات
تئیس مارچ، چودہ اگست اور چھ ستمبر جیسے اہم قومی مواقع کے دن اسکولوں کے بچوں کے مابین نغموں،ٹیبلو،بحث و مباحثہ اور تقاریری مقابلوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ان سرگرمیوں کا انعقاد بچوں میں جذبہ حب الوطنی ،دفاع وطن جیسے جذبات پیدا کرنے کا باعث بنتا ہے۔
صحت اور جسمانی نشوونما کے لئے کھیلوں کا اہتمام
طلبہ کی صحت اور جسمانی نشوونماان کی تعلیم پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق صحت مند دماغ صحت مند جسم میں ہی ہوتا ہے ۔ اور اسی قول کے پیش نظر مختلف قسم کے کھیل، دوڑ، ریس جیسی سرگرمیوںکا اسکول میں انعقاد نصابی سرگرمیوں میں شامل ہے۔
مذہبی سرگرمیاں
نیشنل ڈے کی طرح مذہبی مواقع پر بھی اسکول وںمیںمختلف مقابلو ں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ان سرگرمیوں میں حسن قرات ،نعت خوانی ،سیرت نبوی اور دوسرے اسلامی موضوعات پر تقاریر اور مباحثے وغیرہ جیسی سرگرمیاں شامل ہیں ان سرگرمیوں کا مقصد طلبہ کو مذہب کے بارے میں بنیادی معلومات سے آگاہی جیسا بنیادی فریضہ سر انجام دیناس بھی ہے۔
نیشنل ہیروز اور طلبہ وطالبات
قومی اورمذہبی تقریبات کی طرح کسی بھی ملک کے لئے قومی اور ملی ہیروز بھی خاصی اہمیت رکھتے ہیںوہی قومیں بلند منازل حاصل کرتی ہیں جو اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں۔اسی بات کے پیش نظر ہر قوم اپنے شہیدوں کی برسی کے موقعے پر انہیں خراج تحسین پیش کر نے کے لیے یہ دن خاص اہتمام سے مناتی ہے ۔ چنانچہ قائداعظم ، علامہ اقبالاور قائد ملت کے یوم پیدائش پر تقاریر، ملی نغموںاور اقبال کی نظموں پر مشتمل پروگرام تر تیب دیے جاتے ہیں۔
تقسیم اسناد ،کانووکیشن
چھوٹے بڑے تمام تعلیمی اداروں میں طلبہ کی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنے کے لئے تقسیم اسناد یا پھرفارغ التحصیل ہونے والےطلبہ و طالبات کو مینجمنٹ سائنسز‘ کمپیوٹر سائنسز اور انجینئرنگ کے شعبوں میں ڈگریاںدینے کے لئے تقسیم اسناد اور کانووکیشن جیسی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان تقاریب میں موجود مہمان خصوصی نمایاں کارکردگی دکھانے والے طلبہ و طالبات کو گولڈ میڈل ،سلور میڈل یا پھر اعزازی شیلڈز سے نوازتے ہیں۔
میوزیکل شوز
اکثرتعلیمی اداروں میں بچوں کے لئے غیر نصابی سرگرمیوں کی تکمیل کے لئے میوزیکل شوز کا بھی اہتمام کیا جاتا ہےجس میں طلبہ کے ساتھ ساتھ معاشرے سے تعلق رکھنے والے ہر مکتبہ فکر کے افراد بھی شرکت کرتےاور مختلف کلاموں پر بھرپور داد دیتے ہوئے میوزک سے لطف اندوزہوتے ہیں۔
تفریحی دورے
تعلیمی عمل اگر مشینی عمل بنا دیا جائے تو طالبِ علم کی شخصیت گہنا جاتی ہے۔طلبا کی صلاحیتوں میں نکھار ،قوت فیصلہ ،مہم جوئی کے شوق میں اضافہ کے لئے تعلیمی اداروں میں تفریحی اور تعلیمی دوروں کا انعقاد کیا جاتا ہے جو کہ تعلیم کے لئےضروری ہونے کے ساتھ ساتھ انسان کی صحت پر بھی مفید اثرات مرتب کرتے ہیں ماہرین کے مطابق کتابی کیڑا پن شخصیت کو چاٹتا رہتا ہے۔
طوطا سازی کا عمل یا تو نمو کے امکانات ختم کر دیتا ہے یا گھٹن پیدا کرتا ہے۔ تعلیم کا تفریح سے وہی تعلق ہے جو پانی کا پھلواری سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیمی ادارے ہر سیشن میں طلبہ و طالبات کے لیے تفریحی دوروں کا اہتمام کرتے ہیں۔
Abrar Ahmed is a Pakistani journalist, columnist, writer, and author known for his contributions in the field of journalism and conflict resolution. He was born on March 19, 1982. He holds a master’s degree from the University of the Azad Jammu and Kashmir Muzaffarabad and has also studied at Quaid E Azam University.
Abrar Ahmed is recognized as the founder of several notable organizations, including the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and Daily Sutoon Newspaper. Additionally, he established the Save Humanity Foundation, reflecting his commitment to humanitarian causes.
As a journalist, columnist, and author, Abrar Ahmed has written extensively on various subjects. He has authored several books, including “Tehreek E Azadi key Azeem Surkhaik,” “Corruption key Keerhay,” “Masla e Kashmir ka Hal Aalmi aman ka Rasta,” and “Pakistan and Azad Kashmir political system and new system needed.” These books cover topics ranging from the struggle for freedom, corruption, the Kashmir issue, and the need for political reform.
Abrar Ahmed has also contributed to education through his text books, such as “Modern Community Development Ideas” and “Basic Journalism,” which have helped educate and shape the minds of aspiring journalists and community development professionals.
In summary, Abrar Ahmed is a multifaceted individual who has made significant contributions to journalism, conflict resolution, and education in Pakistan. His work as a writer and founder of various organizations reflects his dedication to promoting positive change and addressing critical issues in society