سابق امریکی سفارتکار زلمے خلیل زاد کے لیے تنازعات کچھ نئے نہیں ہیں تاہم حال ہی میں اُن کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر بے لاگ تبصروں اور بحران کے حل کے لیے تجاویز سامنے آنے کے بعد یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ان کی ’پاکستان کے معاملات‘ میں حالیہ دلچسپی کی وجوہات کیا ہیں۔
زلمے خلیل زاد امریکی سیاست سے تعلق رکھنے والے واحد شخصیت نہیں ہیں جنھوں نے حالیہ دنوں میں پاکستان کے سیاسی بحران پر اپنی رائے کا اظہار کیا ہو۔ امریکی کانگریس کے رکن بریڈ شرمین اور سینیٹر جیکی روزن بھی پاکستان کے سیاسی اتار چڑھاؤ پر حال ہی میں اپنی آرا کا اظہار کر چکے ہیں۔
واضح رہے کہ افغان نژاد زلمے خلیل زاد امریکہ کے سابق سفارتکار ہیں جو اس وقت کسی حکومتی عہدے پر نہیں ہیں تاہم افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا میں انھوں نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
زلمے خلیل زاد نے چند روز قبل یعنی 14 مارچ کو ٹوئٹر پر کہا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان میں جاری بحران بڑھے گا اور یہ تجویز دی تھی کہ حکومت جون میں انتخابات کی تاریخ دے اور اس دوران تمام سیاسی جماعتیں مل کر ملک کی سکیورٹی، ترقی اور استحکام کے لیے منصوبہ بندی کریں۔
ان کے اس بیان پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے ردعمل دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کو کسی کے ’لیکچر‘ یا مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس کے باوجود 21 مارچ یعنی بدھ کے دن زلمے خلیل زاد نے ایک بار پھر سوشل میڈیا کا رُخ کیا اور اپنے اکاؤئنٹ پر لکھا کہ ’ایسے لگ رہا ہے کہ پاکستان کی پارلیمان، جو حکومتی اتحاد کے زیر اثر ہے، سپریم کورٹ سے کہہ سکتی ہے کہ عمران خان کو نااہل کیا جائے یا اگلے چند دنوں میں تحریک انصاف پر پابندی لگا سکتی ہے۔‘
انھوں نے لکھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ (پی ڈی ایم) حکومت طے کر چکی ہے کہ عمران خان کو ریاست کا دشمن نمبر ایک بنایا جائے تاہم ایسا کرنے سے پاکستان میں بحران شدید ہو گا اور بین الاقوامی مدد میں کمی آئے گی۔‘
زلمے خلیل زاد نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’مجھے امید ہے کہ پاکستانی سیاستدان قومی مفاد کو نقصان پہنچانے والی تباہ کن سیاست سے گریز کریں گے اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو سپریم کورٹ ایسے کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دے گی۔‘
زلمے خلیل زاد کی ٹویٹ کا آخری جملہ تھا کہ ’پاکستان کے بارے میں میری تشویش بڑھ رہی ہے۔‘
دوسری جانب امریکی سینیٹر جیکی روزن نے بھی 22 مارچ کو ہی ٹوئٹر پر لکھا کہ ’مجھے پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی تشدد پر تشویش ہے اور میں تمام پارٹیوں سے کہتی ہوں کہ اختلافات کو پرامن طریقے سے حل کریں اور قانون اور جمہوریت کی پاسداری کریں۔
’ہمیں زلمے خلیل زاد جیسے لوگوں کے مشوروں کی ضرورت نہیں‘
زلمے خلیل زاد اور سینیٹر جیکی روزن کی جانب سے تازہ ترین بیانات کے بعد ایک بار پھر سوشل میڈیا پر ان کا تذکرہ بھی ہوا اور یہ سوال بھی کہ موجودہ وقت میں امریکی سیاست دانوں کی اچانک پاکستان میں دلچسپی کی وجہ کیا ہے۔
ایک جانب جہاں تحریک انصاف کے رہنماوں نے ان بیانات کا خیر مقدم کیا، وہیں حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے ان پر تنقید کی۔
مسلم لیگ ن کے رہنما اور نواز شریف، مریم نواز کے ترجمان محمد زبیر نے زلمے خلیل زاد کے بیان پر ردعمل میں کہا کہ ’پاکستان کی حکومت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ ملک کے لیے کیا بہتر ہے اور ہمیں زلمے خلیل زاد جیسے لوگوں کے مشوروں کی ضرورت نہیں ہے جنھوں نے افغانستان میں بگاڑ پیدا کیا جس کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں۔‘
تاہم دوسری جانب تحریک انصاف رہنما اور سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے لکھا کہ ’پاکستان کی صورتحال پرتشویش بڑھ رہی ہے۔ زلمے خلیل زاد، سینیٹر جیکی روزن، کانگریس میں مائیک لوون اور امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی حقوق پر رپورٹ پاکستان میں گرفتاریوں اور تشدد پر شدید تشویش ظاہر کر رہی ہے، پاکستان سفارتی طور پر تنہا ہے۔ سعودی عرب اور امارات جیسے دوست ملک فاصلے پر ہیں۔‘
ایسے میں سوشل میڈیا پر مختلف افراد نے یہ سوال بھی کیا کہ زلمے خیل زاد کی پاکستان کی سیاسی صورتحال میں حالیہ دلچسپی کی وجہ کیا ہے؟ اور کیا یہ بیانات تحریک انصاف کی جانب سے بین الاقوامی لابنگ کی کوششوں کا نتیجہ ہے؟
چند افراد نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ عمران خان کی جانب سے حکومت گرانے کی سازش میں امریکی کردار کے بیانیے کے بعد کیا اب تحریک انصاف امریکی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے؟
صحافی مبشر زیدی کے مطابق ’زلمے خلیل زاد افغانستان میں ناکام ہوئے۔ اس وقت وہ امریکہ میں کارنرڈ ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری سے جب بی بی سی نے سوال کیا کہ آیا امریکی شخصیات کے بیانات پی ٹی آئی کی کسی باقاعدہ لابنگ کا نتیجہ ہیں تو اُن کا کہنا تھا کہ ’اوورسیز پاکستانی جو بیرون ملک مقیم ہیں وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اپنے اپنے سینیٹرز سے خود بات کر رہے ہیں اور اُن کو ای میل کر رہے ہیں۔‘
فواد چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا ’آنے والے دنوں میں ایسے مزید بیانات بھی سامنے آئیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’کسٹوڈیل ٹارچر (دورانِ حراست تشدد) کا معاملہ کافی سنگین ہے اور پاکستان بین الاقوامی معاہدوں کا حصہ ہے۔ ایسی ہی صورتحال رہی تو ہمیں عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کرنا پڑ سکتا ہے۔‘
جب فواد چوہدری سے سوال کیا گیا کہ کیا ایسے بیانات کو وہ ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں سمجھتے تو ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں موجودہ صورتحال تشویشناک ہے اور یہ تنقید درست نہیں کہ تحریک انصاف اندرونی معاملات میں مداخلت کا خیر مقدم کر رہی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’انسانی حقوق کی اس قسم کی خلاف ورزی جنرل ضیا کے دور کے علاوہ کبھی نہیں ہوئیں، ایسی مثال ہی نہیں ملتی۔ ہم نے بدترین ادوار میں بھی ایسا تشدد نہیں دیکھا، جب اتنے جعلی کیسز بنائے گئے ہوں، اس بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کی گئی ہوں۔‘
لیکن کیا بیانات کا یہ سلسلہ حکومت کے لیے بھی پریشانی کا باعث بن سکتا ہے؟
نجم الدین شیخ پاکستان کے سابق سیکریٹری خارجہ رہ چکے ہیں۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ ایسے بیانات حکومت پر کس طرح سے اثر انداز ہوتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے بیانات کسی بھی حکومت کے لیے پریشان کن ضرور ہوتے ہیں کیوںکہ حکومت دفاع کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔‘
بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کوئی بھی ریاست ایسے بیانات کو کنٹرول نہیں کر سکتی اور نہ ہی ایسی شخصیات کے بیانات پر باقاعدہ سرکاری سطح پر احتجاج کیا جا سکتا ہے۔‘
’پاکستان یہ کر سکتا ہے کہ دفتر خارجہ امریکی سفیر کو بلا لے اور ان سے بات کرے لیکن ممکنہ طور پر وہ کہیں گے کہ یہ تو آزادی اظہار رائے کا معاملہ ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں نجم الدین شیخ نے کہا کہ ’یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کی امریکہ میں لابی کافی طاقتور ہے۔‘
اُنھوں نے دعویٰ کیا امریکہ میں ایسوسی ایشن آف فزیشن ایک بااثر تنظیم ہے جس نے اب تک ان معاملات پر کوئی پوزیشن نہیں لی لیکن انفرادی طور پر اس تنظیم کے لوگ تحریک انصاف کے حامی ہیں جنھوں نے پوزیشن لی ہے۔
زلمے خیل زاد کا تعلق افغانستان سے ہے تاہم وہ تعلیم حاصل کرنے امریکہ گئے جہاں سے انھوں نے 1969 میں شکاگو یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ڈاکٹریٹ کیا۔
یہ وہ وقت تھا جب امریکہ افغانستان میں سوویت یونین کی آمد کے بعد مقامی تنازع میں پاکستان کے ذریعے مداخلت کر رہا تھا اور 1985 میں امریکی محکمہ خارجہ میں شمولیت اختیار کرنے والے زلمے خلیل زاد کا مستقبل بھی اسی تنازع سے وابستہ ہو گیا۔
نائن الیون کے حملے ہوئے تو زلمے خلیل زاد بش انتظامیہ میں وائٹ ہاؤس کے واحد شخص تھے جن کا افغانستان سے براہ راست تعلق تھا جس کے باعث صدر بش نے انھیں افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی مقرر کر دیا۔
اس دوران زلمے خلیل زاد کا پاکستان کی سیاست سے بھی براہ راست تعلق رہا اور ان کی پاکستان میں عسکری اور سیاسی شخصیات سے روابط استوار ہوئے۔
زلمے خیل زاد کا نام اس وقت ایک بار پھر اہمیت اختیار کر گیا جب امریکہ نے افغانستان سے انخلا کے لیے طالبان سے بات چیت کا آغاز کیا۔ زلمے خیل زاد کو اس معاہدے کا ’روح رواں‘ قرار دیا جاتا ہے جس کے تحت امریکہ نے آخر کار اپنی فوج کو افغانستان سے نکالا، تاہم سابق افغان صدر اشرف غنی اسی معاہدے کی وجہ سے زلمے خلیل زاد کے مخالف رہے۔
اس دوران زلمے خلیل زاد کی پاکستان میں اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملاقاتیں ہوئیں جو اس معاہدے کے حامی تھے۔
Abrar Ahmed is a Pakistani journalist, columnist, writer, and author known for his contributions in the field of journalism and conflict resolution. He was born on March 19, 1982. He holds a master’s degree from the University of the Azad Jammu and Kashmir Muzaffarabad and has also studied at Quaid E Azam University.
Abrar Ahmed is recognized as the founder of several notable organizations, including the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and Daily Sutoon Newspaper. Additionally, he established the Save Humanity Foundation, reflecting his commitment to humanitarian causes.
As a journalist, columnist, and author, Abrar Ahmed has written extensively on various subjects. He has authored several books, including “Tehreek E Azadi key Azeem Surkhaik,” “Corruption key Keerhay,” “Masla e Kashmir ka Hal Aalmi aman ka Rasta,” and “Pakistan and Azad Kashmir political system and new system needed.” These books cover topics ranging from the struggle for freedom, corruption, the Kashmir issue, and the need for political reform.
Abrar Ahmed has also contributed to education through his text books, such as “Modern Community Development Ideas” and “Basic Journalism,” which have helped educate and shape the minds of aspiring journalists and community development professionals.
In summary, Abrar Ahmed is a multifaceted individual who has made significant contributions to journalism, conflict resolution, and education in Pakistan. His work as a writer and founder of various organizations reflects his dedication to promoting positive change and addressing critical issues in society