عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت 12 ہفتوں کی کم تر سطح پر آگئی

عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں عالمی کساد بازاری کی وجہ سے طلب میں کمی کے خدشے کے باعث بڑی کمی آگئی ہے اور 12 ہفتوں کی کم تر سطح آگئی ہے

خبرایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق ستمبر کی ڈیلیوری کے لیے برینٹ فی بیرل قیمت 2.99 ڈالر یا 2.9 فیصد تک گر کر 99.78 ڈالر پر آگئی ہے جبکہ امریکی ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) خام تیل کی قیمت 3.19 یا 3.2 فیصد تک گرگئی اور 96.31 ہوگئی۔

برینٹ کی قیمت میں 9 فیصد اور ڈبلیو ٹی آئی کی 8 فیصد کمی کے بعد قیمتیں 11 اپریل کے بعد کم ترین سطح پر آگئی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دونوں بینچ مارک تیکنیکی طور پر ریلیٹیو اسٹرینتھ انڈیکس (آر ایس آئی) کے ساتھ اوور سولڈ ٹریٹی سے دوسرے روز بھی 30 کی سطح سے نیچے رہے، اگر برینٹ اسی سطح پر بند ہوا تو یہ دسمبر 2021 کے بعد پہلی مرتبہ دو روز کے لیے اوور سولڈ ٹریٹی پر برقرار رہے گا۔

انوسٹمنٹ بینک گولڈ مین سیچز کا کہنا ہے کہ تیل کی طلب میں کمی کساد بازاری کے بڑھتے ہوئے خدشات کے باعث ہے۔

اسی طرح جرمنی کی سرکاری قرضوں کی لاگت بھی 5 ہفتوں کی کم سطح تک گر گئی ہے جو معاشی خرابی کے باعث جنم لینے والے خدشات کے باعث ہے۔

امریکی اسٹاکک انڈیکسز میں بھی فیڈرل ریزرو کے اجلاس کے فیصلوں کے پیش نظر تنزلی ہوئی جہاں معاشی صورت حال اور شرح سود میں اضافے کے حوالے سے جائزہ لیا جانا ہے۔

رپورٹ کے مطابق تیل کی قیمتوں میں کمی ڈالر کی بڑھتی ہوئی قدر بھی ہے جو دیگر ملکوں کی کرنسیوں کے مقابلے میں تقریباً 20 برس کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔

ڈالر کی قدر میں استحکام سے دیگر کرنسی رکھنے والوں کے لیے تیل مہنگا پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے طلب میں کمی آجاتی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ چین تیل درآمد کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے اور یہاں پر کووڈ-19 کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر لاک ڈاؤن کا خدشہ ہے اور ایسا ہوا تو طلب میں کمی آسکتی ہے۔

چین کے خام تیل کی روس سے درآمد مئی میں ریکارڈ 55 فیصد تک بڑھ گئی تھی جو ایک سال سے قبل بہت کم تھی۔

روس نے تیل کے بڑے برآمد کنندہ کے طور پر سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ دیا تھا کیونکہ ریفائنرز نے یوکرین میں روس کی مداخلت کے بعد رعایتی قیمت کا فائدہ اٹھایا تھا۔

پیٹرولیم ریفائنری کمپنی اکوائنور اےایس اے نے تیل کی قیمت میں دباؤ کی کمی کی ایک اور وجہ بتائی کہ ناروے کے پیٹرولیم کے شعبے میں اسٹرائیک کی وجہ سے تیل اور گیس کی فیلڈز پر مرتب ہونے والے اثرات چند روز کے اندر مکمل طور بحال ہونے کا امکان ہے۔

ایران کا کہنا تھا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ قطر میں 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے مذاکرات کے بعد وہ دنیا کی طاقتوں کے ساتھ پائیدار معاہدہ چاہتا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دنیا میں خام تیل کی فراہمی کے لیے 10 لاکھ بیرل روزانہ کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

Abrar Ahmed is a Pakistani journalist, columnist, writer, and author known for his contributions in the field of journalism and conflict resolution. He was born on March 19, 1982. He holds a master’s degree from the University of the Azad Jammu and Kashmir Muzaffarabad and has also studied at Quaid E Azam University.

Abrar Ahmed is recognized as the founder of several notable organizations, including the Institute of Research for Conflict Resolution and Social Development, Ikhtilaf News Media and Publications, and Daily Sutoon Newspaper. Additionally, he established the Save Humanity Foundation, reflecting his commitment to humanitarian causes.

As a journalist, columnist, and author, Abrar Ahmed has written extensively on various subjects. He has authored several books, including “Tehreek E Azadi key Azeem Surkhaik,” “Corruption key Keerhay,” “Masla e Kashmir ka Hal Aalmi aman ka Rasta,” and “Pakistan and Azad Kashmir political system and new system needed.” These books cover topics ranging from the struggle for freedom, corruption, the Kashmir issue, and the need for political reform.

Abrar Ahmed has also contributed to education through his text books, such as “Modern Community Development Ideas” and “Basic Journalism,” which have helped educate and shape the minds of aspiring journalists and community development professionals.

In summary, Abrar Ahmed is a multifaceted individual who has made significant contributions to journalism, conflict resolution, and education in Pakistan. His work as a writer and founder of various organizations reflects his dedication to promoting positive change and addressing critical issues in society

Comments (0)
Add Comment